خونی انقلاب

عدالت کے فیصلے کہ بعد کہ اب جنوری میں نیا بینچ بنے گا اور نئے سرے سے سماعت کرے گا، لوگ شدید مایوس ہیں۔ کچھ دوست پرائیویٹ میسجیز میں کہہ رہے تھے کہ اس ملک کے نظام کو بدلنے کا واحد حل خونی انقلاب ہی ہوگا جب کبھی بھی ہوا اور جس کے ہاتھوں بھی ہوا۔ میں نے اتفاق کیا لیکن ایک دوست کے میسج نے پھر سوچنے پر مجبور کردیا کہ ہم میں سے کون کرپٹ نہیں؟
پھر یاد آیا چند دن پہلے حکومت ہی نے رپوٹ جاری کی کہ ملک میں چلنے والے ‘‘صرف پچاس‘‘ بناسپتی گھی کے کارخانے مضرِ صحت گھی تیار کررہے ہیں۔ یاد آیا کہ چند دن پہلے ملتان سے جعلی خون کی بوتلیں برآمد ہوئیں، ملک میں بکنے والا اسی فیصد دودھ دودھ نہیں بلکہ مختلف کیمیکلز کا مرکب ہے، ہم رشوت کو چائے پانی کہتے ہیں، مردار گدھوں اور کتوں کا گوشت کئی ہوٹلوں اور قصابوں سے پکڑا گیا ہے، سیوریج کے پانی سے سبزیاں اگائی جارہی ہیں، ڈاکٹرز اب گردے نکال کر بیچ دیتے ہیں، ماؤں نے نارمل طریقے سے بچے جننے چھوڑ دیئے ہیں کیونکہ ڈاکٹرز کے پیٹ نہیں بھرتے، شہد کے نام پر چینی، شکر اور گُڑ کا شیرہ ملتا ہے، دو دن پہلے سنتالیس لوگ طیارہ حادثے میں قتل کردیئے گئے اور ایم ڈی پی آئی اے فرمارہے ہیں کہ امید تھی کہ طیارہ ایک انجن سے لینڈ کرلے گا، بلوچستان میں جانور اور انسان ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے ہیں (میلوں سفر کے بعد اگر کوئی گھاٹ مل جائے) اور اسی بلوچستان کے ایک بائیس گریڈ کے افسر کے گھر سے ایک ارب روپے کے قریب کیش برآمد ہوا اور اس افسر کے صرف ڈیفنس کراچی میں اب تک آٹھ بنگلے دریافت ہوچکے ہیں، عوام کو علاج کے لیے ہسپتالوں سے دو دو سال بعد کا ٹائم ملتا ہے اور حکمرانِ وقت دنیا کے بہترین ہسپتالوں اور ڈاکٹروں سے علاج کروانے ملک سے باہر جاتا ہے، پیچھے سے یہی عوام اس کی صحتیابی کی دعائیں کرتے ہیں اور اس کی ملک واپسی پر تیس کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں۔
اس ملک میں بھتہ ناملنے پر انسانوں نے ہی تین سو انسانوں کو زندہ جلادیا لیکن لوگ اب بھی اس پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں، اس ملک کے تین بار وزیرِ اعظم بننے والے شخص کی پارلیمنٹ میں اللہ کے ننانوے ناموں کے نیچے کھڑے ہوکر کی گئی تقریر کو ملک کی سب سے بڑی عدالت میں سیاسی بیان کہہ دیا گیا، اس ملک کے سب سے بڑے صوبے کا تیسری مرتبہ کا وزیرِ اعلٰی انتخابات سے پہلے بڑے بڑے وعدے کرتا ہے اور انتخابات کے بعد اسے جوشِ خطابت قرار دے دیا جاتا ہے، ہمارے ملک میں جان بچانے والی ادویات بھی جعلی بنتی ہیں، ٹھیکیدار تعمیرات میں ناقص میٹریل استعمال کرتے ہیں اور زلزلوں سے مرنے والے لوگوں کو اللہ پر ڈال دیا جاتا ہے، اس ملک کے سب سے بڑے صوبے کا ساٹھ فیصد بجٹ صرف ایک شہر پر لگا دیا جاتا ہے اور باقی سات کروڑ لوگ اپنے حقوق کے لیے چُوں تک نہیں کرتے، وہ اپنے علاقے سے ہزار کلومیٹر دور صوبائی دارلحکومت میں کسی سڑک کے بننے پر بگلیں بجارہے ہوتے ہیں جبکہ ان کے اپنے شہر کھنڈر کا منظر پیش کررہے ہوتے ہیں، پچھلے سال خبر آئی تھی کہ قائدِاعظم کے مزار کی دیکھ بھال پر موجود عملہ مزار کے نیچے موجود کمروں کو ''جوڑوں'' کو کرائے پردیتا ہے، بچوں سے جنسی زیادتی کے ہوشربا اور ہولناک سکینڈلز سامنے آتے ہیں، قبروں سے مُردوں تک کو نکال کر ہوس مٹائی جاتی ہے،
کہا جاتا ہے کہ تین کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں اور آدھی سے زیادہ آبادی کم خوراکی کی وجہ سے اپنی گروتھ بھی پوری نہیں کرپاتی۔ اس ملک میں آئے روز بے گناہ عمر قید سے زیادہ قید کاٹ کر پھانسی چڑھ جاتے ہیں اور ہماری عدالتیں بعد میں فیصلہ کرتی ہیں کہ وہ شخص تو بے گناہ تھا، دنیا بھر میں رواج ہے کہ کوئی مجرم عدالت جاتے یا آتے وقت احساسِ ندامت سے اپنا چہرہ چھپاتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں بڑے بڑے سے بڑے مجرم حتٰی کے قاتل بھی عدالتوں کے باہر وکٹری سائن بناتے نظر آتے ہیں۔ اس ملک میں آپ اپنا جائز سے جائز کام بھی خوار ہوئے اور رشوت دیئے بغیر نہیں کرواسکتے، لوگ اپنی محافظ پولیس سے دامن بچا کر دور دور سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں، جو عدالتیں کسی ملک کا وقار ہوتی ہیں اور اس کے عوام کا آسرا ہوتی ہیں تو ان کے بارے میں مساجد میں دعائیں کی جاتی ہیں کہ اللہ ہمیں کورٹ کچہری سے بچائے، اور پھر ہماری قوم فرقہ واریت میں اس حد تک پیوست ہوچکی ہے کہ ہمارے شہید اور ہیروز بھی الگ الگ ہیں۔ اور بھی بے شمار چیزیں ہیں اس سب میں ایڈ کرنے کے لیے لیکن اتنا لمبا پڑھے گا کون۔۔
اس لیے بس اتنا ہی کہوں گا کہ ہم خواہش تو اچھے کی کرتے ہیں لیکن بحیثیت قوم ہم اسی قابل ہیں جو ہمارے ساتھ ہورہا ہے۔۔ (محمد تحسین)

0 comments:

Post a Comment